نئی دہلی،4فروری(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)پروفیسر سیف الدین سوزؔ ، سابق مرکزی وزیر نے آج میڈیا کے نام مندرجہ ذیل بیان جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ ’’میں اپنے کشمیری ہم وطنوں کو اُ ن کے روز مرہ کے سیاسی بحث و مباحثہ سے عارضی طور دوسری طرف یعنی ڈونالڈ ٹرمپ کی سوچ کے خطرناک نتائج کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں۔ بدقسمتی سے ٹرمپ کی سوچ کا اثر ہم پر بھی براہِ راست ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ آج کل اُس بڑی کرسی پر ڈونالڈ ٹرمپ براجمان ہو گئے ہیں تو امریکہ کے لوگوں کو بجا طور پر پریشانی لاحق ہو گئی ہے۔ باقی دنیا بھی دھیر ے دھیرے اس سوچ کے اثراب سے متاثر ہوگی۔ ابھی امریکہ کے لوگوں کیلئے لازمی طورپرڈونالڈٹرمپ کی سوچ پریشانی کا باعث بن گئی ہے ۔امریکہ سمجھنے لگا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ ،جارج واشنگٹن سے لے کر تھامس جیفرسن تک ،جیفرسن سے لے کر ابراہیم لنکن تک اور ابراہیم لنکن سے لے کر براک ابوما تک اُس مجموعی سوچ کے مقابلے میں صف آرا ہو گیا ہے جس سوچ نے امریکہ کو دنیا کی سب سے صاف و شفاف اور مضموط جمہوریت بنایا تھا ۔ ٹرمپ ہر چیز اپنے تجربے سے کرنا چاہتا ہے ۔اسلئے امریکہ کے لوگوں کا پریشان ہونا لازمی امر ہے۔ باقی دنیا بھی پریشان ہونے والی ہے۔سابق مرکزی وز یرکاکہناہے کہ معاف کیجئے ،میں آپ کی توجہ دوسری خوفناک صورتحال کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں۔ڈونالڈ ٹرمپ ماحولیات میں گہری تبدیلی (Climate Change) جو زمین کے تپ جانے سے پیدا ہو گئی ہے وہ اس سوچ کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ دراصل یورپی ممالک کی زبردست جدوجہد جس میں بھارت نے کافی تعاون دیا تھا اور بالخصوص الگور۔Algore، ( بل کلنٹن کے ساتھ وائس پریذیڈنٹ )جیسے ماہرین نے پورا زور لگا کر کلنٹن اور باراک اوباما کے وقت میں امریکہ کی رائے عامہ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ عالمی سطح پر دھویں سے ماحولیات میں جو کثافت پیدا ہو گئی ہے اس کو بڑی حد تک کم کیا جانا چاہئے تاکہ دنیا میں جو کوشش ہو رہی ہے اس میں امریکہ بھی شامل ہو جائے۔ڈونالڈ ٹرمپ اُس سوچ کے خلاف جانا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی ایک مجبوری یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بحیثیت تاجر وہ جنرل موٹرس ، تیل کی کمپنیوں اور اسلحہ بنانے والی لاتعداد کمپنیوں کو راحت دینا چاہتے ہوں گے جن کو کہا گیا تھا کہ وہ دنیا کی کثافت کو دور کرنے کیلئے کوشش میں شامل ہو جائیں کیونکہ یہ احساس ہو گیا تھا کہ دنیا کی موجودہ کثافت کی سطح پیدا کرنے میں امریکہ کا حصہ ۲۵ فیصد سے زیادہ تسلیم کیا گیا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی اس سوچ سے امریکہ کی اکثریت پریشانی میں مبتلا ہو گئی ہے۔ اور باقی دنیا بھی اس تشویش میں شامل ہونے لگی ہے۔ اب میں آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ اس سلسلے میں آپ میری پریشانی کو زرا سمجھ لیجئے ۔دراصل میری پریشانی اس وجہ سے ہے کہ میں کشمیر کو موسموں کے زبردست تغیر و تبدل (Climate Change) کی ایک لیباریٹری مانتا ہوں۔ اب آپ زرا سوچئے کہ ہمارے یہاں کیا ہو رہا ہے ۔ میرے بچپن اور جوانی کے عالم میں کشمیر میں زبردست برفباری ہوتی تھی ( آج کے نوجوان اپنے بزرگوں سے پوچھ سکتے ہیں) اور دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں جو برف گرتی تھی وہ جم جاتی تھی اور دھیرے دھیرے ماہ مئی تک پگلتی تھی۔ پہاڑوں پر برف بڑی دھیر تک رہتی تھی۔ اس کے برعکس آج دیکھ لیجئے ، ابھی جو برف گری وہ پورے کشمیر میں (ماسوائے پہاڑی علاقوں کے) تیزی سے پگل رہی ہے ۔کیونکہ زمین میں تپش موجود ہے اسی کے ساتھ دیکھ لیجئے کہ ہمارے یہاں ابابیل (کتجِ ) برسوں سے نہیں ہے، اب تو چڑیاں بھی مفقود ہو گئی ہیں اور ہمارے یہاں شہد کے چھتے ختم ہو گئے ہیں۔ ہمارے یہاں جو سونت (Tsonth)کا موسم تھا وہ بھی کئی برسوں سے دیکھنے کو نہیں ملتا۔ انہوں نے کہاہے کہ میری مودبانہ درخواست ہے کہ اس پریشانی کی طرف تھوڑی توجہ دی جانی چاہئے اور اس امر پر بحث و مباحثہ ہونا چاہئے کہ کیا ہم چھوٹے پیمانے پر کچھ کر سکتے ہیں اور اگر کر سکتے ہیں تو اس بارے میں تھوڑی سی پہل کی جانی چاہئے ۔ اس سلسلے میں اگر بحث بھی چھڑ جائے تو اچھا ہے۔ ‘‘